News Image

سی پیک کے حوالے سےنجی ٹی وی  کے ایک پروگرام میں ہونے والی بات چیت پر وزارت منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات کا ردعمل

مورخہ 21مئی کو نجی ٹی وی کےایک پروگرام میں سی پیک بارے گفتگو کے دوران حقائق کے برعکس اور مسترد شدہ اخباری اطلاعات کو بنیاد بنا کر کئی نکات پیش کئے گئے، جس کی تصحیح انتہائی ضروری تاکہ عوام میں پائی جانے والی بے چینی و غلط فہمیوں کا سد باب کیا جاسکیں۔

1۔ حکومت اشتہارات و کاغذوں میں بجلی بنا رہی ہے۔

صورتحال اس سے قطعاً مختلف ہے، حکومت نے عوام کیساتھ جو عہد کیا تھا اس کی تکمیل ہونے جارہی ہے، بجلی کے شعبے میں درجنوں منصوبوں پر سی پیک اور سی پیک سے ہٹ کر کام جاری ہے جس کی تکمیل ملک کو ہمیشہ کیلئے نہ صرف اندھیروں سے نکال لے گی بلکہ پاکستان میں اضافی بجلی میسر آئے گی جس سے صنعتوں کے استعمال میں لا کر ملک کی معاشی ترقی کو یقینی بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ تفصیل درج ذیل ہے۔

حکومت  مئی /جون 2018تک دس ہزار سے زائد میگاواٹ بجلی نیشنل گریڈ میں شامل کرے گی، اسی سال سی پیک اور نان سی پیک  کے کوئلے کےمتعدد منصوبوں کی تکمیل ہوگی،  سال 2020 تک مزید 10ہزار میگاواٹ کے منصوبے مکمل کئے جائیں گے۔

18-2017میں مکمل ہونے والے منصوبوں کی تفصیل

گیس سیکٹر

مدت تکمیل

پیداواری صلاحیت (میگا واٹ)

منصوبے کا نام

19اپریل2017 کو وزیر اعظم پاکستان نےمنصوبے کے پہلے یونٹ کا افتتاح کردیا ہے، منصوبہ دسمبر 2017میں مکمل ہوگا

1180

بھکی پاور پلانٹ

پہلا فیز ستمبر 2017 میں مکمل ہوگا جبکہ منصوبہ جنوری 2018 میں مکمل طور پر فعال بنایا جائے گا

1223

بلوکی پاور پلانٹ

پہلا فیز جون2017 جبکہ دوسرا فیز جنوری 2018 میں مکمل کیا جائے گا

1230

حویلی بہادر شاہ پلانٹ

کوئلے کے منصوبے

منصوبے کے پہلے یونٹ نے کام شروع کردیا ہے جبکہ دوسرا فیز اپنے مدت سے چھ ماہ قبل دسمبر 2017میں فعال بنایا جائے گا

1320

ساہیوال پاور پلانٹ

 

Project منصوبے کا پہلا یونٹ دسمبر 2017 جبکہ دوسرا یونٹ مئی یا جون 2018تک مکمل ہوگا

1320

پورٹ قاسم پلانٹ

 

 

پن بجلی

جون 2018میں مکمل کیا جائے گا

1410

تربیلا توسیعی منصوبہ –4

 

منصوبہ اپریل 2018میں مکمل ہوگا

969

نیلم جہلم منصوبہ

منصوبے کاافتتاح جلد ہوگا، کام تقریبا مکمل کیا جا چکا ہے

147

پٹ رینڈ ہائڈرو پراجیکٹ

اکتوبر 2017 میں منصوبہ مکمل ہوگا

106

گولن گول ہائڈرو پراجیکٹ

 ایٹمی توانائی

یہ پلانٹ اکتوبر 2017 تک بجلی کی پیداوار شروع کردےگا

340

چشمہ نوکلئیر پاور پلانٹ  توسیعی منصوبہ

قابل تجدید توانائی

2017 اور 2018 میں متعدد منصوبے مکمل ہوئے اور کئی مکمل کئے جائیں گے

1200

ہوا سے توانائی کے 21منصوبے

دسمبر 2017 تک مکمل ہوگا

400

قائد اعظم سولر پارک

10845میگا واٹ

کل پیداوار

 

2۔ مفاہمتی یاداشت پارلیمنٹ کے فلور پر زیر بحث کیوں نہیں لائے جاتے۔

اس وقت سی پیک کے حوالے سے قومی اسمبلی اور سینیٹ کی پانچ قائمہ کیمیٹیاں کام کررہی ہیں اور وزارت منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات  کی جانب سے ہر ہفتے ان کمیٹیوں کو  سی پیک کے کسی نا کسی موضوع پر تفصیلات/بریفنگ  دی جاتی ہیں، اب تک سی پیک کے ہر گوشے پر انہی کمیٹیوں کو آگاہ کیا جاتا رہا ہے، اس کے علاوہ سینٹ اور قومی اسمبلی کے وقفہ سوالات میں ہر روٹہ ڈے پر کوئی 30 سے 40فیصد سوالات سی پیک کے حوالے سے ہی زیر بحث لائے جاتے ہیں، وفاقی وزیر احسن اقبال، وزارت منصوبہ بندی و سی پیک سیکرٹریٹ کے اہلکار ہر روز میڈیا، جامعات، و بزنس کمیونٹی کو سی پیک کے حوالے سے آگاہی دینے میں مصروف رہتے ہیں، سی پیک کی اپنی سرکاری ویب سائٹ پر ہر منصوبے کے حوالے سے تٖفصیلی معلومات درج ہیں، مزید براں تمام صوبائی حکومتوں کے سربراہ یعنی وزراء اعلیٰ و دیگر افسران سی پیک کے تمام فورمز (پراگریس ریویو، جائنٹ ورکنگ گروپس اور جائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی) کے اجلاسوں  میں باقاعدہ شرکت کرتے ہیں جہاں ہر منصوبے کی زیر و زبر کے حوالے سے تفصیلات زیر بحث لانے کیساتھ ساتھ فیصلے کیے جاتے ہیں، ایسی صورتحال میں سی پیک کے حوالے سے معلومات کی عدم فراہمی کا گلہ کرنا بجا نہیں۔

3۔ زراعت کے شعبے میں پاک چین تعاون کے تحت چینی زمیندار یہاں آئیں گے اور انہیں زمینیں آلاٹ کی جائے گی۔

یہ نکتہ اخباری رپورٹ  کو بنیاد بنا کر اٹھایا گیا ہے، اس رپورٹ کو  وزارت منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات پہلے ہی مستر د کر چکی ہے ،  یقینا طویل المدتی مرحلے میں توانائی، شاہراہوں، گوادر  کیساتھ ساتھ زراعت، صنعتوں، سیاحت اور دیگر شعبوں میں پاکستان اور چائنہ کے مابین  تعاون  جاری رہے گا مگر ہر گز ایسا نہیں کہ پاکستان مقامی زمین داروں کی اراضی پر قبضہ کر کےاسے چینی زمینداروں کے حوالے کر ےگا جہاں وہ زرعی فارمز قائم کریں گے یا وہاں سے پیداوار حاصل کرکے کاروبار کریں گے، زرعی شعبے کی ترقی کیلئے مختلف اقدامات ضرور ہونگے جس میں تحقیق ، بیج کی ترقی، جد ید فارمنگ اور پروسسنگ وغیرہ میں چین کے ماہرین کی جانب سے تکنیکی تعاون فراہم کرنے کی تجویز شامل ہے۔

4۔ صنعتی ترقی کے شعبے میں تعاون کے زریعے پاکستان کو بہت کم فائدہ ہوگا کیونکہ چین یہاں سے خام مال منتقل کرے گا اور فنشنگ کر کےزیادہ فائدہ حاصل کرے گا۔

صورتحال قطعاًاس سے مختلف ہے، پاکستان اور چین  کے مابین صنعتی تعاون کے شعبے میں ہر صوبے و علاقے میں ایک ایک صنعتی زون قائم کرنے کا فیصلہ ہوا ہے ، ابھی تک تمام صوبوں و علاقوں کی تعاون سے 9 زونز کی نشاندہی ہو چکی ہیں، ان زونز میں کن  شرائط و فارمولے  کے تحت تعاون ہوگا اس پر پاکستان کے مختلف ادارے تمام سٹیک ہولڈرز کیساتھ مل کر منصوبہ بندی میں مصروف ہیں، تاہم یہ بات واضح ہے کہ  ان زونز میں چین کےایسےسرمایہ کاروں کو دعوت دی جائے گی جو بڑے پیمانے پر مینوفکچرنگ کو فروغ دے سکیں،  خام مال کی تیاری سے لیکر فنشنگ تک تمام مراحل یہیں مکمل کئے جائیں گے، اس وجہ سے یہاں ہزاروں لاکھوں پاکستانیوں کیلئے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور ملک کی بر آمدات میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوگا۔

5۔مین پاور کے بارے میں فیصلہ ہونا چاہئے، منصوبوں میں 50 ، 50فیصد کی شرح ہونی چاہئے۔

سی پیک کے تحت توانائی، شاہراہوں اور گوادر کے شعبے میں  متعدد منصوبوں پر اس وقت کام جاری ہے، اگر ان منصوبوں میں ملازمتوں کی شرح کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوگا کہ یہاں 70سے 80 فیصد پاکستانی اور 20فیصد کے قریب چینی اہلکار کام کررہے ہیں، یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ موجودہ کے علاوہ مستقبل کے منصوبوں میں چین کی لیبر یہاں منتقل کی جائے گی۔ یہ امر انتہائی غیر منطقی ہوگا کہ لیبر مہنگی ہونے کی وجہ سے یہاں منتقل کی جانے والی انڈسٹری میں چینی اہلکاروں کو ملازمتیں دی جائیں۔پاکستانی حکومت صوبوں کیساتھ مل  کر تکنیکی تربیت کے مختلف منصوبوں پر کام کررہی  ہے۔تاکہ مقامی نوجوان ملازمتوں کے ان مواقعوں سے استفادہ کرسکیں۔

6۔ سی پیک سے بھر پور استفادہ نہیں کیا جارہا ہے۔دریائے سندھ کا پانی استعمال نہیں کیا جارہا ہے

یہ تاثر انتہائی غلط ہے کہ حکومت سی پیک سے بھر پور استفادہ کرنے میں ناکام رہی  ہے، دریائے سندھ کے پانی سے بجلی بنانے کے لئے پاکستان اور چین نے سی پیک کی چھٹی جے سی سی میں باقاعدہ فیصلہ کیا تھا، اسی فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان ایک مفاہمتی یاداشت پر دستخط ہوچکے  جس کے تحت بھاشا ڈیم کے حوالے سے ایک سٹڈی کی جائے گی، مزید براں دریائے سندھ کے شمالی حصے میں بجلی کے منصوبوں کو شروع کرنے پر دونوں ممالک کے ماہرین کے درمیان بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔

7۔ ساحلی علاقوں میں سیاحت کو فروغ دیا جائے گا، یہاں بیچز، مساج سنٹرز و ڈسکوز بنیں گے

یہ تاثر بے بنیاد ہے، پاکستان اور چین کے مابین یقنا طویل المدتی مرحلے میں سیاحت کے شعبے میں تعاون کی تجویز زیر غور ہے،   یہاں کے شمالی و ساحلی علاقوں میں سیاحت کو فروغ دینے کے بڑے مواقع موجود ہیں، حکومت پاکستان نے ہمیشہ سیاحت کو فروغ دینے کیلئے اقدامات  کی ہیں ، جن میں صحت افزاء مقامات تک سڑکوں  و انفراسٹرکچر کی تعمیر ، ہوٹلز، سیاحتی مقامات کو ترقی دینے، واٹر سپورٹس  کو فروغ دینے اور فیری سروز  شروع کرنے جیسے اقدات  شامل  ہیں،  سی پیک کے تحت یہ موقع ہاتھ لگا ہے کہ اس شعبے کو صنعت کا درجہ دے کر نہ صرف مقامی آبادی بلکہ  ملک کی معاشی ترقی کیلئے کام کیا جائے، تاہم یہ بات واضح ہے کہ ملک میں سیاحت کیلئے جو بھی اقدامات ہوں گے وہ پاکستانی تہذیب و ثقافت کو مد نظر رکھ کر کئے جائیں گے۔

8۔ ملک کے 25 شہروں میں مانیٹرنگ کا نظام رائج کیا جائے گا جس کا کنٹرول چائنہ کے پاس ہوگا۔

ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر حکومت پاکستان کثیر الجہتی  اقدامات کررہا ہے جس میں ایک جانب قبائلی علاقہ جات و شہروں میں فوجی آپریشنز کرکے امن قائم کرنے میں کامیاب ہوا ہے اس کے ساتھ ساتھ مختلف شہروں کو جدید کمپوٹرائزڈ نظام کے تحت سیف سٹیز کےتصور کو مد نظر رکھتے ہوئے اقدامات یقینی بنائے جا چکے ہیں، مستقبل میں بھی اگر ایسا کوئی اقدامات ہوں گے تو اس کا اختیار حکومت پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ہوگا، کیونکہ پاکستانی سرزمین پر شہروں، کاروباری مراکز اور شاہراہوں کی حفاظت کی ذمہ داری صرف اور صرف پاکستانی اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ یہ حقیقت اس بات سے عیاں ہوتی ہے کہ سی پیک منصوبوں کی حفاظت کیلئے  حکومت پاکستان نے  فوج کے زیر نگرانی پہلے ہی ایک باقاعدہ فورس  یعنی سپشل سیکیورٹی ڈویژن تشکیل دی ہے، اس کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں نے بھی اسپشل سیکیورٹی یونٹس کی تشکیل یقینی بنائی ہے۔

9۔ امتیازی ویزا پالیسی کے ذریعے چینی شہریوں کو ویزا فری سہولیات دی جائے گی۔

اس حوالے سے کوئی فیصلہ یا تجویز زیر غور نہیں ۔

10۔ فائبر آپٹیک اور ٹیلی ویژن کے شعبے میں تعاون سے پاکستانی کلچر پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

دنیا ایک گلوبل ویلج کی صورت اختیار کرچکی ہے، انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی  سےمختلف ثقافتوں کا امتزاج ہوا ہے،  سی پیک اور بلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کی وجہ سے جہاں علاقائی روابط میں اضافہ ہوگا وہاں ثقافتوں کا امتزاج ممکن ہوگا جس کی بدولت ایک دوسرے کی ثقافت و تجربات سے سیکھنے و استفادے کے مواقع میسر آئیں گے۔

11۔ سی پیک کے تحت ہونے والی سرمایہ کاری کے خدوخال واضح نہیں۔

یہ تاثر درست نہیں، حکومت پاکستان کی جانب سے مختلف  فورمز بشمول پارلیمنٹ کو بارہا سی پیک کی  مالی خدوخال بتائی جا چکی ہیں،  سی پیک کے تحت بجلی کے تمام منصوبے آئی پی پی  موڈ میں ہیں یعنی یہ قرض یا گرانٹ  نہیں بلکہ سرمایہ کاری ہے، اس کے علاوہ گوادر کے اکثر منصوبے گرانٹ یا بغیر سود قرض  کے تحت مکمل کئے جارہے ہیں جبکہ شاہراہوں و ریل کے منصوبے آسان شرائط و 2 سے 2.5فیصد کی شرح  پر حاصل  کئے جانے والے قرض سے مکمل کئے جارہے ہیں ۔جن کی ادائیگی 20تا25سال میں کرنی ہوگی، یہ آسان ترین شرائط ہیں۔ایک دفعہ پھر واضح کیا جاتا ہے کہ سی پیک قومی نوعیت کا انتہائی شفاف منصوبہ ہے جس کی تمام تر معلومات سٹیک ہولڈرز اور عوام کیساتھ شئیر کئے جاتے ہیں، اس منصوبےپر سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر تمام تر صوبائی حکومتیں نہ صرف متحد ہیں بلکہ  منصوبوں کی بروقت تکمیل کیلئے کوشاں ہیں تاکہ پاکستان اس  بے مثال منصوبے سے پوری طرح استفادہ  کرسکیں۔